کُچھ پَل والد کی یاد میں



یوں تو ہر انسان کی زندگی میں نہ جانے کتنے لمحے آتے ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی میں اچھے اور برے دور سے گزرتا ہے۔ لیکن کچھ بُرا دور ایسا بن جاتا ہے کہ جیسے وہاں زندگی ٹھہر سی گئی ہو۔ اگر انسان اُس دور میں واپس جائے تو اُسے یقین نہیں ہوتا کہ کس طرح اللہ نے اُسے صبر عطا کیا تھا۔

وہ شخص جو اُس کے لیے سب کچھ تھا، آج اُس کے درمیان نہیں تھا۔ اور وہ شخص جو کبھی اُس کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا تھا، آج اُسی کو اپنے ہاتھوں سے زمین میں دفنا کر آیا تھا۔ گویا اُس نے اپنی زندگی کے سب سے عزیز رشتے کو، جس کے ساتھ اُس کا بچپن گزرا تھا، کیڑوں مکوڑوں کے حوالے کر آیا تھا۔

بچپن میں اُن کا ساتھ

اگر میں بچپن کی بات کروں تو لوگ کہتے تھے کہ وہ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ شاید مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ وہ مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ بہت خوشی ہوتی تھی وقت گزارنا ان کے ساتھ۔ اگر کوئی چیز مجھے اچھی لگ جاتی اور میں ان سے کہتا، تو وہ ضرور لے کر آ دیتے۔ جب ہم بڑے ہوئے تو انہوں نے ہمیں شہر کے سب سے اچھے اسکول میں داخل کرایا۔ پتہ نہیں کیوں، وہ بچپن سے ہی مجھے یہ بات کہتے رہتے تھے کہ میرے جانے کے بعد گھر کی ذمہ داری تمہارے اوپر ہے۔ بچپن میں میں اکثر گھبرا جاتا تھا کہ کیا میں یہ ذمہ داریاں پوری کر پاؤں گا۔ دل چاہتا تھا کہ کہہ دوں، "مت بولیے، آپ میرے لیے ایک سہارا ہیں، تو میں اس کے بعد کیا کروں گا؟" لیکن یہ بات میں کبھی کہہ نہ سکا۔


والد کی سختی اور سزا 

بچپن میں میرے والد نے مجھے پڑھایا۔ وہ پڑھائی کے معاملات میں بہت سخت رہتے تھے۔ اُن کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں دل لگا کر پڑھوں اور زندگی میں کچھ بنوں۔ اگر کبھی وہ کوئی کام دیتے اور میں اُسے پورا نہ کر پاتا، تو وہ ڈانٹ دیتے تھے۔ اکثر سمجھاتے تھے کہ آگے زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے، اس لیے آج سے ہی محنت کرو اور اپنی زندگی کو بہتر بناؤ۔

پڑھائی کے دوران اگر کبھی نقل کرتا تو بہت ناراض ہوتے، اور کبھی کبھار ایک آدھ تھپڑ بھی لگا دیتے۔ اُنہیں بدتمیزی بالکل برداشت نہیں تھی، اور اگر ہم سے کبھی کوئی گستاخی ہو جاتی، تو وہ ضرور ہمیں تنبیہ کرتے۔ بہر حال، والدین کا اولاد کی غلطیوں پر ڈانٹنا اور سمجھانا اُن کی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔

والد سے دوری

ھر وہ کمانے کی غرض سے عمان چلے گئے۔ چند مہینے ہی وہاں رہے کہ لوگوں نے انہیں بہت ستایا اور وہ واپس ہندوستان آ گئے۔ گھر میں تنگی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ وہ حالات تھے کہ ان پر کتاب بھی لکھ دوں تو کم پڑ جائے۔ نہ جانے کتنے قرضے ہو گئے۔ پھر وہ کام کی تلاش میں دہلی آ گئے اور کام کرنے لگے۔ اللہ نے انہیں روزی دی اور گھر کی پریشانی کم ہو گئی۔ اب والد اتنے دور ہوگئے کہ وہ صرف عید یا بقرعید پر ہی آتے تھے—اور کبھی کبھار وہ بھی نہیں آتے تھے۔ یاد آتی تو کہتے، "ہمیں بھی دہلی بلا لیجیے۔" میں کہتا، "ہاں، بلا لائیں گے، جلدی۔

میرا دہلی آنا

جب میں نے 2016 میں اپنا 10واں کا امتحان دیا تو اس کے بعد انہوں نے مجھے دہلی بلا لیا۔ اب ان کا مزاج بدل گیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم سارے فیملی کے ممبر دہلی شفٹ ہو جائیں۔ اور اللہ کا کرم ہوا کہ 2016 سے 2017 تک میں والد صاحب کے ساتھ رہا۔ تھوڑی بہت ان کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ پڑھ کر آتا تو کھانا بناتا، اور اگر اچھا بنتا تو بڑی تعریف کرتے۔ کبھی میں بیمار پڑتا تو کہتے، "بدن میں درد ہو رہا ہے؟" تو میں دوا دیتا۔ میں مانا کرتا، لیکن وہ دوا دے دیتے۔ میں کہتا تھا کہ خدمت ہمارا کام ہے، تو وہ کہتے، "تم صرف محنت سے پڑھو، یہی میری سب سے بڑی خدمت ہے۔" پھر الحمدللہ ہم 2017 میں فیملی کے ساتھ دہلی شفٹ ہو گئے۔ اب ہماری اور ان کی سب کی تنہائی ختم ہو گئی۔

والد کی فکر میرے کیریئر پر

 میں نے 2019 کے بعد انجینرنگ کی تیاری کے لیے دو سال گھر میں بیٹھ گیا۔ شاید اتنا مکمل دھیان لگا کر میں نے پڑھائی نہیں کی۔ وہ مجھ سے کہتے تھے، "پتہ نہیں، میرا کیا بھروسہ؟ اتنا وقت کیوں لے رہے ہو؟ گھر کی ذمہ داری ہے۔ انجینئرنگ کرنا ضروری نہیں، کچھ اور کیریئر جس میں تمہیں اچھا لگے، وہ کر لو۔"

یہاں یہ بات بھی بتاؤں کہ میں نے 10ویں سے آج تک ٹیوشن کلاس پڑھائی ہے۔ ایک بار میں نے اپنے پیسے سے ان کے لیے کرتا پاجامہ خریدا، وہ بہت خوش ہوئے اور سب کو بتایا کہ میرے بیٹے نے مجھے تحفہ دیا ہے۔ انہیں میرا پیسہ نہیں چاہیے تھا، انہیں مجھے ایک اچھا کام کرتا ہوا آدمی دیکھنا تھا۔

کووِڈ کے وقت بیماری اور میرا غم

مارچ 2021 میں میری ان سے بات ہوئی، اور یہی وہ آخری بات تھی جو میں نے ان سے بیماری سے پہلے کی تھی۔ اُس وقت ہم فیملی کے ساتھ بہار آئے ہوئے تھے۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ ہم دہلی آنا چاہتے ہیں، آپ ٹکٹ کے پیسے بھیج دیجیے۔

 وہ کہنے لگے، "پیسے ابھی ہاتھ میں نہیں ہیں، آتے ہی بھیج دوں گا۔ یہاں کورونا بہت بڑھ رہا ہے، تم لوگ یہاں مت آؤ، میں خود بہار آ جاؤں گا۔"

پھر کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ ان کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ وہ امّی کو فون کر کے بتاتے کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ امّی نے کہا، "ڈاکٹر کو دکھا لیجیے۔" تو انہوں نے کہا، "ہاں، دکھوا لیں گے۔" ہم نے کہا کہ ہم دہلی آجائیں، آپ اکیلے ہیں، تو انہوں نے منع کر دیا اور کہا، "یہاں بہت کیسز ہیں، ابھی آنا خطرہ ہے۔"

آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بگڑتی گئی۔ حالات خراب ہوتے گئے۔ ہم بار بار کہتے کہ ہمیں آنے دیجیے، مگر وہ ہر بار منع کر دیتے۔ جب حالت زیادہ بگڑ گئی تو میرے کچھ عزیزوں نے انہیں اسپتال میں داخل کرا دیا۔

 اب وہ ٹھیک طرح سے بات بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ مجھے دل ہی دل میں یہ محسوس ہونے لگا کہ شاید وہ وقت آ گیا ہے جس کا ذکر وہ ہمیشہ کرتے تھے۔ میری حالت یہ ہو گئی تھی کہ میں ایک جگہ بیٹھ نہیں پاتا تھا۔ میں گھبرا گیا تھا — اندر سے پوری طرح ٹوٹ چکا تھا۔

اسپتال میں داخلہ اور موت سے پہلے کا ایک دن

ایک دن والد صاحب جب زیادہ بیمار ہو گئے تو اُن کا فون ہمارے نمبر پر آیا۔ کہنے لگے، “تم لوگ آ جاؤ، یہاں کوئی نہیں ہے۔”

 اُس لمحے میری پریشانی یقین میں بدلنے لگی تھی — دل کہہ رہا تھا کہ شاید اب وہ وقت قریب آ گیا ہے۔ میں نے امّی سے کہا کہ ہم فوراً نکلتے ہیں، مگر مجبوری کی وجہ سے ایک دن بعد نکلنا پڑا۔

جب پہنچ کر والد کو دیکھا، تو دل ماننے لگا کہ شاید وہ لمحہ واقعی آ چکا ہے۔ جب میں اسپتال سے کھانے جاتا تو وہ پوچھتے، “میرا بابو کہاں ہے؟” امّی کہتیں، “کھانے گیا ہوا ہے۔”

 میں جب ان کے سینے پر ہاتھ رکھتا تو وہاں صرف ہڈیاں محسوس ہوتیں۔ کبھی کبھار وہ کچھ کہتے، مگر میں سمجھ نہیں پاتا۔ میں پوچھتا، “کیا ہوا؟” تو کہتے، “پتہ نہیں، میں کچھ بولتا رہتا ہوں، تم دھیان نہ دو۔”

پہلے وہ جنرل وارڈ میں تھے، پھر حالت بگڑنے پر انہیں آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔ میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ جب حالت میں بہتری نہ آئی، تو انہیں دوسرے اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔

یہی وہ دن تھا — انتقال سے ایک دن پہلے۔

 جب میں ایمبولینس میں ان کے ساتھ تھا، تو میں نے کہا، “ابّی، تکلیف ہو رہی ہے نا؟ آپ دُعا پڑھیے۔”

 انہوں نے سورۃ الفاتحہ پڑھی، پھر کچھ اور سورتیں بھی پڑھیں۔ آواز لرز رہی تھی، سانس ٹوٹ ٹوٹ کر آ رہی تھی۔

ایمبولینس میں ہی وہ امّی سے معافی مانگنے لگے — “مجھے معاف کر دینا…”

 اور پھر اسپتال پہنچتے ہی اُنہیں پیاس لگنے لگی۔

 پتہ نہیں، وہ رات انہوں نے کیسے گزاری — بغیر پانی کے، بغیر سکون کے، اُس سرکاری اسپتال کی خاموش دیواروں کے درمیان۔

انتقال کا لمحہ 

صبح اگلے دن میرے ماموں کے نمبر پر ڈاکٹر کا فون آیا —

 “ہم آپ کے پیشنٹ کو نہیں بچا پائے…”

جیسے ہی مجھے یہ خبر ملی، میں نے کہا الحمدللہ، کیونکہ اللہ کا شکر ہر حال میں ادا کرنا ضروری ہے۔ پھر زبان سے نکلا —

 إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

اس کے بعد جب انہیں قبرستان لے جایا گیا تو وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے سخت اور دردناک مرحلہ تھا۔

 وہ شخص جسے میں نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا،

 وہ شخص جس کے بدن پر اگر ذرا سا گرد و غبار لگ جاتا تو میں صاف کر دیتا،

 وہ شخص جو میرے ساتھ بستر پر سوتا تھا —

 آج میں اُسی شخص کو قبر میں اُتار کر اُس کے سر کے نیچے مٹی کا ڈھیلا رکھ رہا تھا۔

اور پھر… قبر کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔

اختتامیہ

والد کی کمی زندگی میں ایک خالی پن کی مانند ہے، جسے کوئی چیز پورا نہیں کر سکتی۔ وہ شخص جو میری رہنمائی، حمایت اور محبت کا سرچشمہ تھا، اب صرف یادوں میں زندہ ہے۔ ان کے جانے کے بعد ہر لمحہ اُن کی تربیت، اُن کی نصیحت اور اُن کی قربانیوں کو یاد کر کے صبر اور حوصلہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔

ان کے سائے اور رہنمائی کی کمی محسوس ہوتی ہے، لیکن ان کی یادیں اور اصول ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کی مغفرت کرے۔

اصل میں، والد کبھی واقعی نہیں مرتے، وہ ہمیشہ دل اور یادوں میں زندہ رہتے ہیں۔





Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

When a Brother Becomes a Memory

Start Your Business From Facebook & Instagram

گناہ اور دل کی ندامت