گناہ اور دل کی ندامت
![]() |
زندگی کے گناہ اور دل کی ندامت
کبھی کچھ لمحے ہماری زندگی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتے ہیں اور کچھ رشتے ایسے بکھرتے ہیں کہ واپسی ممکن نہیں رہتی، تب انسان ایک پل کو ٹھہر کر سوچتا ہے: "آخر میں نے کیا کر دیا؟" شاید ہم نے کچھ ایسے گناہ کیے ہوتے ہیں جو صرف انسانوں کے ساتھ نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ ظلم بن جاتے ہیں۔ تب دل بار بار سجدے میں گرتا ہے، اور زبان پر صرف ایک دعا ہوتی ہے — "یا اللہ! مجھے معاف کر دے"۔ لیکن کیا واقعی ہم گناہ کر کے بچ سکتے ہیں؟ اس دنیا میں شاید لوگ بھول جائیں، وقت گزر جائے، لیکن اللہ کی نظر سے کچھ چھپ نہیں سکتا۔ ہر گناہ کا انجام ہے، اور وہ انجام نہ صرف اس دنیا میں، بلکہ آخرت میں بھی بہت خوفناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے گناہ کرنے سے پہلے ایک لمحے کو رک کر ضرور سوچیے کہ یہ وقتی خوشی کہیں دائمی عذاب کا دروازہ نہ کھول دے۔ اللہ ہمیں اُن گناہوں سے بچائے جو توبہ سے پہلے ہی ہماری روح کو لے ڈوبیں۔ آمین۔
1. گناہ، جوش یا جہالت؟
جب انسان گناہ کرتا ہے تو عجیب سی کیفیت طاری ہوتی ہے — نہ جانے کیوں شیطان اُسے اس گناہ کی گرفت میں کچھ اس طرح لے لیتا ہے کہ وہ اللہ کو، اُس کے سامنے کھڑے ہونے کو، اور اپنے انجام کو یکسر بھول جاتا ہے۔ اگر وہ ایک بار بچ نکلتا ہے، تو دل میں یہ زہریلا وسوسہ جنم لیتا ہے کہ "اب تو مجھے کوئی پکڑ ہی نہیں سکتا!" اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب جہالت کا پردہ اُس کی عقل اور روح پر چھا جاتا ہے۔ پھر وہ ایک گناہ کے بعد دوسرا، اور پھر تیسرا... یوں وہ اس غفلت میں ڈوبتا چلا جاتا ہے کہ شاید وہ کبھی ان چیزوں کو سمجھ ہی نہ سکا جنہیں سمجھنا اُس کی نجات کے لیے ضروری تھا۔ یہ وہ نادانی ہے جو صرف وقتی سکون دیتی ہے، لیکن انجام میں صرف پچھتاوا چھوڑتی ہے۔
2. ضمیر کی چپ آواز سب سے بلند ہوتی ہے
جب انسان خود اپنے ہاتھوں سے سب کچھ برباد کر دیتا ہے، تو ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں وہ معافی مانگنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ شاید اس کے اندر اب کچھ باقی ہی نہیں رہتا — نہ حوصلہ، نہ امید، نہ الفاظ۔ جس شخص کے لیے سب کچھ کیا، وہی جب ہمیشہ کے لیے چلا جائے، تو لگتا ہے جیسے وہ دنیا کے لیے تو زندہ ہو، مگر میرے لیے مر چکا ہے۔ وہ شخص جس سے ہر دن بات ہوتی تھی، آج قصہ ایسے ختم ہوا کہ میں اپنی بات رکھنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ ساری چیزیں تب یاد آئیں جب سب کچھ برباد ہو چکا تھا۔ اب کچھ بچا ہی نہیں، بس ضمیر ہے جو ہر لمحہ ملامت کرتا ہے — "جاؤ، معافی مانگو!" — لیکن دل کہتا ہے، کیسے جاؤں؟ کیا منہ لے کر جاؤں؟ اور اگر وہ معاف بھی کر دے تو دل نہیں مانتا کہ وہ دل سے معاف کر چکا ہے، لگتا ہے شاید صرف رسمی طور پر لکھ دیا ہو: "میں نے تمہیں معاف کیا"، تاکہ میں دوبارہ کچھ نہ کہہ سکوں۔ اس کیفیت سے گزرنا ایسا ہے جیسے ہر دن موت کے دروازے کو چھو کر واپس لوٹ آنا — سانس تو چلتی ہے، لیکن زندگی کہیں ٹھہر سی جاتی ہے۔
3. ندامت ہی توبہ کا پہلا قدم ہے
انسان جب گناہ کے بوجھ تلے دب جاتا ہے تو ایک وقت آتا ہے جب وہ بار بار اللہ کے سامنے جھکنے لگتا ہے، ایک ہی دعا دل سے نکلتی ہے — "یا اللہ! مجھے معاف کر دے۔" دل میں یہ سوال بار بار گونجتا ہے کہ "کیا واقعی تُو نے مجھے معاف کیا؟" وہ اللہ سے التجا کرتا ہے، دل میں یہ یقین لے کر کہ تبدیلی کا اختیار صرف اسی کے پاس ہے۔ مگر ساتھ ہی ایک ڈر بھی ہوتا ہے کہ کہیں قیامت کے دن یہی گناہ میرے نامۂ اعمال میں کھڑے نہ ہوں۔ دنیا تو کسی نہ کسی طرح گزر جائے گی، لیکن وہ دن... جب کوئی سفارش کام نہ آئے گی، اُس دن کا کیا ہوگا؟ انسان اللہ سے دل کی زبان میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہے، سجدے میں گرتا ہے، راتوں کو جاگتا ہے، آنکھیں نم ہوتی ہیں — کچھ لمحوں کے لیے سکون ملتا ہے، مگر دل میں چبھن باقی رہتی ہے۔ وہ تڑپ، وہ ندامت، جو وقتی طور پر کم ہو سکتی ہے، لیکن ختم کبھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ سچی توبہ وہی ہے جو اندر سے بے چین رکھے، اور اللہ سے امید بندھے رکھے۔
4.میرے اپنے ہاتھوں کی بربادی
جب انسان اپنے کیے ہوئے گناہوں کی قیمت چکانا شروع کرتا ہے تو سب کچھ ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے — رزق میں کمی آتی ہے، دل پریشان ہو جاتا ہے، اور زندگی کی راہیں تاریک ہو جاتی ہیں۔ گناہوں کی تباہ کاریاں اور ان کے دنیوی اثرات واقعی انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف وہ بےچینی اور اضطراب کی ہوتی ہے جو دل کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے...
5. ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا، مگر حال کو سنوارا جا سکتا ہے
میرے خیال میں زندگی کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ ماضی کو ہم کبھی واپس نہیں لا سکتے۔ جو بھی وقت گزر گیا، جو بھی غلطیاں ہوئیں، وہ سب ہمارے ہاتھ سے نکل چکے۔ ہم چاہے کتنی کوشش کریں، پچھلے لمحوں کو بدل نہیں سکتے۔ لیکن ایک چیز ہے جو ہمارے قابو میں ہے — وہ ہے ہمارا حال اور ہمارا کل۔ ہم اپنی زندگی کا رنگ ابھی بھی بدل سکتے ہیں، اپنے عمل اور سوچ کو سنوار سکتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کر ہم اپنے آپ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس لیے کبھی بھی ہار نہ مانو، کیونکہ زندگی ہمیں بار بار موقع دیتی ہے کہ ہم نئے سرے سے خود کو سنواریں اور اپنی کہانی کو اچھے انداز میں آگے بڑھائیں
6. ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا، مگر حال کو سنوارا جا سکتا ہے
زندگی میں جو کچھ بھی ہو چکا، اسے بدلنا ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔ ماضی کے فیصلے، غلطیاں، یا گناہ ہمیں پیچھے کھینچتے ہیں اور دل کو بےچین کرتے ہیں، لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم اس پر زیادہ دیر نہ گھبرائیں۔ کیونکہ ماضی گزر چکا، اسے واپس نہیں لایا جا سکتا۔ لیکن جو وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، یعنی حال، اسے بدلنا اور بہتر بنانا ہمیشہ ممکن ہے۔ اگر ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں، اپنی زندگی کے انداز کو بدلیں، اور سچے دل سے توبہ کریں، تو اللہ کی رحمت ہمارے ساتھ ہوگی۔ اصل طاقت اسی میں ہے کہ ہم ماضی کے سائے کو اپنے حال کی روشنی میں بدل دیں، اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کریں۔ یہی زندگی کا حقیقی سبق ہے — ماضی کا بوجھ دل پر رکھنے کی بجائے، اسے پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا۔
نتیجہ
زندگی میں کبھی کبھی ایسے لمحات آتے ہیں جب ہم اپنے کیے ہوئے گناہوں اور غلطیوں کے سامنے کھڑے ہو کر سوچتے ہیں کہ آخر میں نے کیا کیا؟ یہ گناہ کبھی صرف عمل نہیں ہوتے، بلکہ ہماری روح کے زخم بھی بن جاتے ہیں۔ شیطان کی چالاکی اور ہماری اپنی جہالت ہمیں گناہوں کی گہرائی میں لے جاتی ہے، جہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے دل کے اندر کا ضمیر بار بار ہمیں ملامت کرتا ہے، مگر ہم خود کو بدلنے سے قاصر رہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں، ندامت ہی توبہ کا پہلا قدم ہے، اور اگر ہم سچے دل سے اللہ کے سامنے معافی مانگیں اور اپنی زندگی کو سنوارنے کی ٹھان لیں، تو اللہ کی رحمت ہمارے دروازے کھولتی ہے۔ ماضی کو ہم بدل نہیں سکتے، مگر ہمارا حال اور ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں، اپنے دلوں کو صاف کریں اور زندگی کو ایک نئی شروعات دیں۔ کیونکہ ہر انسان کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے اور اپنی روح کو سکون دے سکے۔ اللہ ہم سب کو اپنی رہنمائی اور بخشش عطا فرمائے۔ آمین۔
.jpg)
Definately
ReplyDelete